11 ستمبر کا واقعہ، امریکی خارجہ پالیسی کی کمزوری اور غلط اندازوں کا نتیجہ

IQNA

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی پروفیسر؛

11 ستمبر کا واقعہ، امریکی خارجہ پالیسی کی کمزوری اور غلط اندازوں کا نتیجہ

9:09 - September 12, 2022
خبر کا کوڈ: 3512704
ایکنا تہران- واقعے نے ثابت کیا کہ امریکی فوجی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی ناقص اور اس کے اندازے غلط تھے۔رولی لعل

فاران تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق آج سے 21 سال قبل آج ہی جیسے دنیا نیویارک میں حملوں کی خبر سن کر جاگ اٹھی؛ دنیا والوں کو اس صدی کے مؤثرترین واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان واقعات کے اثرات سیاست تک محدود نہیں رہے بلکہ انسانی زندگی کے بہت سے پہلو بھی غیر محفوظ ہو گئے۔ مبصرین کے مطابق، اس واقعے نے بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ کو اپنے سے پہلے اور اپنے بعد کے ادوار میں تقسیم کر دیا (تاریخی موڑ)۔ ان واقعات نے دنیا کے سیاسی ادب میں نئی اصطلاح “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کو جنم دیا۔
خارجہ پالیسی کے میدان میں یہ واقعات – افغانستان اور پھر عراق پر امریکی حملے کے بموجب – مشرق وسطیٰ کے چہرے کی مکمل تبدیلی اور ان کی حکومتوں کی کایا پلٹ کا سبب بنے۔ [امریکہ میں] ملکی سطح پر، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے افراد بالخصوص مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق پامال ہوئے اور ان پر دباؤ میں شدت آئی، اور یہ امریکی معاشرے کے لئے 11 ستمبر کے حملوں کا سب سے بڑا نتیجہ تھا۔
رولی لعل (Rollie Lal)، واشنگٹن ڈی سی میں واقع جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول برائے بین الاقوامی امور (Elliott School of International Affairs) کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور فی الحال بین الاقوامی سلامتی، خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی سیاسی معیشت کے شعبے میں پوسٹ گریجویٹ کورسز میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ نیز وہ بین الاقوامی امور اور مذہبی نیٹ ورک (Global Affairs and Religion Network [GARNET]) کی شریک چئیر پرسن بھی ہیں۔

ڈاکٹر لعل کی تحقیق منظم جرائم، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، انسانی حقوق، چین، جنوبی ایشیا اور دیگر شعبوں پر مرکوز ہے۔ ڈاکٹر لعل اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع کے سینٹر فار ایشیا پیسیفک سیکیورٹی اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں۔ قراني خبر ایجنسی
اقنا (Iqna) کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ڈاکٹر رولی لعل نے دنیا اور امریکی معاشرے پر 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔
سوال: 11 ستمبر کے واقعے کے بعد 20 سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود، یہ واقعہ امریکہ میں سیاسی مسائل پر اثرات مرتب کر رہا ہے؛ آپ کے خیال میں اس کا سبب کیا ہے؟
جواب: 11 ستمبر کے حملے امریکیوں کی اکثریت اور حکومت کے لئے بہت لرزہ خیز تھے۔ امریکی عوام آگے کی طرف کی دفاعی حکمت عملی (Forward Defense Strategy) پر مرکوز تھے یعنی یہ کہ “امریکی فوج ہمیشہ گھر سے دور اور دشمن کے قریب، لڑتی ہے؛ اور یہ کہ یہ حکمت عملی کسی بھی دشمن کے مقابلے میں ان کی قومی سرحدوں کو محفوظ رکھتی ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کے حملوں میں 3000 امریکیوں کی ہلاکت امریکی باشندوں کے لئے ناقابل یقین تھی۔ ان حملوں نے ثابت کیا کہ امریکی فوجی حکمت عملی ناقص ہے اور واشنگٹن کے سارے اندازے غلط تھے۔
اس سے پہلے امریکیوں کو یقین تھا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اچھی ہے۔ چنانچہ یہ مسئلہ – کہ کچھ لوگ محسوس کرتے تھے کہ ہمارے عام شہری موت کے مستحق ہیں، – لرزہ خیز اور ہولناک تھا؛ اور اس بات پر وسیع بحث چھڑ گئی کہ “ہم کیوں ایک نشانے [Target] میں تبدیل ہو گئے ہیں؟”، کیا ہماری خارجہ پالیسی غلط تھی؟ کیا دہشت گرد پاگل تھے؟ کیا ہماری خارجہ پالیسی بھی غلط تھی اور دہشت گرد بھی پاگل تھے؟ ہم کیونکر ان مسائل کا ازالہ کر سکتے تھے؟
گیارہ ستمبر کے حملوں کے اثرات مسلم معاشروں اور مسلم اقلیتوں پر
سوال: آپ کے خیال میں 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں نے مسلمانوں سمیت امریکہ کی اقلیتوں پر کیا اثرات مرتب کئے؟
گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں نے امریکی اقلیتوں – بالخصوص مسلمانوں – پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ امریکی اچانک مسلمانوں اور مسلمانوں سے شباہت رکھنے والوں پر بدظن ہو گئے۔ جس کی وجہ سے سکھوں پر بہت سارے حملے ہوئے جو جو سر پر دستار رکھتے تھے، نیز مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے غیر محفوظ ہو گئے۔
اقلیتیں مسلمان کہلوانے میں تردد اور تذبذب کا شکار ہوئے۔ ہوائی اڈوں میں مسلم ہونا، اس اقلیت کو ممکنہ دہشت گرد سمجھا گیا۔ بہت سے مسلمانوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے – کہ وہ ریاست ہائے متحدہ کے وفادار ہیں اور دہشت گرد نہیں ہیں – اپنے گھروں کے سامنے امریکی پرچم نصب کئے۔
یہ مسئلہ مسلمانوں اور دوسرے امریکیوں کے درمیان گہرے اختلاف کا باعث بنا، جبکہ اس سے پہلے فریقین اس مسئلے کو اہمیت نہیں دیتے تھے؛ اور مسلمان امریکہ میں ایک ابراہیمی مذہب کے پیروکار ہونے کے ناطے، قابل احترام سمجھے جاتے تھے۔
سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی معاشرہ حالیہ برسوں کے واقعات و حادثات – جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے – کے بموجب دراڑوں کا شکار اور کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے، آپ کہاں تک اس مدعا سے متفق ہیں؟
جواب: امریکی معاشرہ حالیہ برسوں میں شدید دھڑے بندیوں سے دوچار ہؤا ہے اور میری رائے ہے کہ ٹرمپ کے برسر اقتدار نے دراڑوں کو فاش کر دیا، [اور یہ دراڑیں اس سے پہلے پس پردہ تھیں]، اور دراڑوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ امریکہ کئی عشروں سے کمزور اور غریب طبقوں کو کافی شافی وسائل فراہم نہیں کرتی تھی۔
بطور مثال محروم عااقوں کے اسکول اور بنیادی ڈھانچے کمزور تھے۔ بہت سوں کے لئے یونیورسٹیوں میں حصول تعلیم بہت مہنگا ہو گیا تھا اور غریب طلبہ کو قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی۔ صاحب ثروت لوگوں کو بہت وسائل تک رسائی حاصل تھی۔ محروم طبقوں کو [صر] سی این این اور فاکس نیوز کے چینل مفت دیکھنے کی اجازت تھی!! یہ ذرائع مسائل کو بہت آسان کرکے پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہؤا جو انتخابات سے متعلق پالیسیوں اور انتخابات کی کارکردگی کی کیفیت کے بارے ميں بہت ہی کم معلومات رکھتے ہیں۔ نیز یہ لوگ اقتصاد و معیشت کو نہیں سمجھتے، یا انہیں نہیں معلوم کہ انہیں مزید کہیں کوئی مناسب روزگار میسر کیوں نہیں آتا۔ اس صورت حال نے انہيں کیو آنون (QAnon) جیسے سازش کے نظریات اور تشہیری مہم نیز ٹرمپ کے حوالے سے مزید حساس کر دیا ہے۔ سازش کے مفروضوں ڈیموکریٹوں یا شیطان پرست گروپوں کے بارے میں سننا اس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ آپ کی مہارتیں آج کی دنیا میں کیوں افادیت نہيں رکھتیں، اور آپ کے والدین ایسا گھر خریدنے پر قادر ہیں جس میں پانی کی پائپ بھی آئی ہے لیکن آپ کو بہت مشکل سے ایک نہایت چھوٹے اپارٹمنٹ کے لئے پیسہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹرمپ نے ان افراد سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور کورونا، روزگار اور انتخابات کے بارے میں جھوٹ بولا۔ اس وقت ہمارے پاس امریکیوں کی ایک ایسی بڑی آبادی ہے، جو معاشرے کے دوسرے حصوں سے بالکل مختلف ماحول میں جی رہی ہے۔ تاریخ اور حکومت کے سلسلے میں دونوں دھڑوں کا ادراک بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ ٹرمپ کے نظریات اور مفروضے بہت زیادہ نقصان دہ تھے؛ اور معاشرے کے لئے ایک نئے قائد اور نئی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر معاشرے کے دوسرے دھڑے کو ملک سے آ ملنے کے لئے بلایا جا سکے۔

جاری ہے۔۔

نظرات بینندگان
captcha