ایکنا نیوز- الجزیره نیوز کے مطابق اکانومسٹ میگزین نے رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے حوالے سے کہا ہے کہ سال 2012 میں خونی واقعہ ہوا اور سال 2017 کو میانمار فورسز کی حمایت سے نسل کشی کا وسیع پیمانے پر آغاز ہوا اور اس کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ روھنیگیا جان بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہوئے اور بنگلہ دیش میں انکا کیمپ اس وقت دنیا کے عظیم ترین کیمپ میں تبدیل ہوا ہے۔
میگزین لکھتا ہے کہ بنگلہ دیش میں شروع میں جانا آسان تھا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے اس وقت وہاں پر فورسز کا رویہ سخت ہوا ہے کیونکہ اب انکو وہاں پر بوجھ سمجھنے لگا ہے۔
اکانومیسٹ مزید لکھتا ہے: آج روھنگیا اقلیت کا پانچواں حصہ میانمار میں باقی ہے اور ایک ایسی جگہ رہنے پر مجبور ہے جہاں پریشر گروپ فورٹی فائیو رائٹس اس کمیپ کو " ماڈرن جیل" قرار دیتا ہے ایسا کیمپ جو شروع میں صرف دو سال کے لیے ڈیزاین کیا گیا اور سیلاب اور طوفان سے یہ شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لگتا ہے شرایط روھنگیا مسلمانوں کے لیے تدریجی طور پر موت کا عمل بن چکی ہیں اور میانمار میں جمعیت کی آبادی کافی حد تک کم ہوچکی ہے۔
اکانومسٹ کا خیال ہے کہ جب تک میانمار کی فوج طاقت کے ساتھ موجود ہے روھنگیا کی حالت زار ایسی ہی باقی رہے گی۔/
4080338