زندگی کی شکست اور کامیابی میں ہمارا کردار

IQNA

قرآن کہتا ہے/ 53

زندگی کی شکست اور کامیابی میں ہمارا کردار

8:52 - May 30, 2023
خبر کا کوڈ: 3514390
زندگی مشکلات کے ہمراہ ہے جس میں کامیابیاں بھی ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم شکست کیوں کھاتے ہیں اس میں میرا کیا کردار ہے؟

ایکنا نیوز- زندگی میں ایسے ہی موڑ پر قرآن کا خطاب ہوتا ہے کہ  سوال کرتا ہے کہ تم سست اور غمگین کیوں ہوتے ہو؟!

إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ؛ اگر تم پر ( ميدان کارزار میں) کوئی نقصان وارد ہوتا ہے تو تمھارے مقابل پر بھی نقصان وارد ہوا ہے، ہم نے ان (کامیابیوں اور شکست) کو تمھارے درمیان لاتے ہیں؛ (اور یہ دنیا کی خصوصیت ہے) تا کہ ایمان لانے والوں کی شناخت ہو اور خدا تمھارے درمیان سے قربانیوں کا انتخاب کرتے ہیں، اور خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا.»(آل‌عمران، ۱۴۰).

تفسیر نمونه کے مطابق اس آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے قانون کے مطابق زندگی میں تلخ و شیرین واقعات دیرپا نہیں اور «خداوند ان چیزوں کو باری باری لاتا ہے» تا کہ امتحان کی روایت باقی رہے (وَ تِلْکَ الْأَیَّامُ نُداوِلُها بَیْنَ النَّاسِ).

اور پھر ان ناگوار حادثات کے طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: «یہ اس وجہ سے ہے کہ ایماندار اور غیرایمان دار کا فرق واضح ہوجائے» (وَ لِیَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا).

تم اسلام کی راہ میں قربانیاں پیش کرو» (وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُهَداءَ).

بلکہ اصول ہے کہ جو قوم اپنے مقدس اہداف کے لیے قربانی نہ دیں وہ حقیر رہے گی تاہم قربانی کے بعد انکی عظمت بڑھتی ہے اور انکو عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔

جو دلچسپ نکتہ پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ «خدا ستمگروں کو دوست نہیں رکھتا» (وَ اللَّهُ لا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ) لہذا تمام انسانوں کو بلاتفریق خطاب ہوتا ہے کہ  غیر انسانی سلوک سے دور رہیں کہ خدا انکو پسند نہیں کرتا۔

 

نکات

 تفسیر نور میں ہم پڑھتے ہیں: اس آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم حق کے لیے نقصان اٹھاتے ہو تو تمھارے دشمن کو بھی نقصان پہنچتا ہے اگر تم شکست کھاتے ہو تو دشمن کو بھی شکست ہوتی ہے پس سختیوں میں صابر رہو۔

اگرچہ «شهداء»، «شهيد» اور «شاهد» قرآن میں «گواه» کے معنی میں استعمال ہوا ہے، ليكن شأن نزول کے مطابق کوئی اس میں جنگ میں قتل ہونے والوں کے بارے میں استعمال کرتا ہے تو غلط نہیں، مسلمانوں کو ان مواقعوں پر توجہ دینی ہوگی کہ۔

الف: «أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ» تم بلند مرتبہ ہوگے.

ب: «فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ» دشمن بھی زخمی ہوچکے ہیں.

ج: «تِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها» تلخ ایام گزر جائیں گے.

د: «وَ لِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا» خدا مومن و منافق کو الگ کرے گا.

ه: «وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَداءَ» خدا تم میں مستقبل کے لیے گواہ لیں گے.

و: «وَ اللَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ» خدا تمھارے مخالف ظالموں کو دوست نہیں رکھتا.

امام صادق عليه السلام اس آیت بارے فرماتے ہیں: «جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا ہے، خدائی قدرت و حكومت اور شیطانی طاقت میں جنگ جاری ہے، تاہم مکمل الھی حکومت قیام و ظہور حضرت قائم عليه السلام سے محقق ہوگی».

 

پیغامات

1- مسلمانوں کو صبر و استقامت میں کفار سے کم نہیں ہونا چاہیے. «فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ»

2- تلخ و شیریں واقعات پائیدار نہیں. «تِلْكَ الْأَيَّامُ نُداوِلُها بَيْنَ النَّاسِ»

3- زندگی کے تلخ و شیرین واقعات میں مومن و غیر مومن کا انتخاب ہوگا. «لِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا»

4- خدا گواہ لیگا کہ کیسے رہبر کے حکم سے نافرمانی شکست کا باعث ہوگی. «وَ يَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَداءَ»

5- کفار کی عارضی فتح خدا کی محبت کی نشانی نہیں. «اللَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ»

6- حادثات خدا کے منشا و مرضی کے مطابق ہوتے ہیں. «نُداوِلُها»

نظرات بینندگان
captcha