بچوں کی دلچسپی کے لئے نصاب میں گرافکس کو جب دل چاہے بدل دیتا ہوں

IQNA

آنلاین تعلیم بارے شاداب احمد سے گفتگو

بچوں کی دلچسپی کے لئے نصاب میں گرافکس کو جب دل چاہے بدل دیتا ہوں

9:34 - February 26, 2023
خبر کا کوڈ: 3513810
ایکنا تھران: شاداب احمد جو بچوں کو گرافکس کے ساتھ دینی دنیاوی گھنٹوں پڑھانے کا ہنر رکھتے ہیں۔

ایکنا نیوز - تہران میں 2023 کی بین الاقوامی قرآنی نمائش کے سلسلہ میں نمائندہ محترم ولی فقیہ دہلی کی جانب سے استفسار تھا کہ وہاں کے لئے فعال قرآنی اشخاص کے سلسلہ میں مشورہ دوں۔ چنانچہ اس کی تگ و دو میں مختلف شخصیات سے آشنائی حاصل ہوئی انھیں میں سے ایک شاداب احمد صاحب ہیں جو انتہائی فعال استاد اور فنکار ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ بہار میں مولانا شکیل احمد صاحب کے سگے بھائی بھی ہیں۔ ان کی سرگرمی خصوصا آنلاین سرگرمی کو دیکھتے ہوئے مناسب لگا کہ بین الاقوامی قرآنی خبر ایجنسی IQNA میں بھی ان کی سرگرمیوں کا تعارف ہونا چاہئے۔ چنانچہ ان سے ایک مختصر سی گفتگو کا اہتمام کیا گیا۔

ایکنا : قبلہ کچھ اپنے بارے میں بتائیے کہاں سے تعلق ہے اور تعلیم وغیرہ کے سلسلہ میں کچھ بیان فرمائیے

ناچیز کو شاداب احمد کے نام سے جانتے ہیں میرا وطن سرزمین بہار کی زر خیز بستی گوپال پور سے ہے جہاں کے تعارف میں ہم لوگ عام طور پر آیت العظمیٰ مولانا سید راحت حسین رضوی کا نام لیتے ہیں۔ ۱۹۹۵ میں ہائی اسکول کے بعد جامعه امامیہ انوار العلوم الہٰ آباد اور پھر جوادیہ عربی کالج بنارس میں دینی تعلیم حاصل کی۔ ۲۰۰۳ میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد آیا تھا اور یہں سے گریجویشن اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۶ سے ۲۰۱۲ تک ای ٹی وی اردو یا نیوز ۱۸ چینل میں خدمت کی۔ اس کے بعد آئی بی فوکس ہائی اسکول میں ۲۰۱۳ سے ۲۰۲۰ تک بحیثیت اردو معلم خدمات انجام دیں۔ اسکول کے بعد ۲ گھنٹے ایک مکتب کی ذمہ داری کو انجام دے رہا تھا بعد میں مکتب سدرۃ المنتہیٰ کا اعلان کیا اور اب جو بھی کام ہے وہ سبھی پر روشن ہے۔

ایکنا : آپ نے ذکر کیا کہ پہلے ہائی اسکول کیا اور پھر دینی تعلیم کی طرف آئے تو ایسا کیوں ہوا ہوگا؟

جی ہاں ۱۹۹۵ میں ہائی اسکول کے بعد والد محترم سید نواز اختر جو ادیب عصر مولانا سید علی رضوی ( مترجم الغدیر) کے بڑے بھائی تھے بستر علالت پر دس سال رہے۔ اس دوران مجھے مدرسے میں بھیج دیا گیا جہاں درجہ ثالث تک پہنچا ہی تھا کہ بڑی بہن کی شادی ۳ شعبان کو منعقد ہوئی اور اسی دن والد کا انتقال ہو گیا ماہ رمضان کے بعد میں مدرسے گیا تو معلوم ہوا کے اسی جماعت میں رہنا ہے چنانچہ میں وہاں سے جامعه جوادیہ چلا آیا اور ۲۰۰۳ تک فاضل کی سند لیکر حیدرآباد آیا اور یہیں سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔

 

ایکنا : ہجرت ایک مشکل کام ہے آپ نے ہجرت کر کے کیا کھویا اور کیا پایا؟

حیدرآباد آنے کے بعد سلطان العلماء مولانا سید غلام حسین رضا آغا صاحب کی سرپرستی نے کھونے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا اور جو کچھ بھی پایا وہ قبلہ کی اور ڈاکٹر صادق احمد نقوی صاحب کی بدولت ہے۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں ڈاکٹر نقوی سے ملا تو شیروانی اور ٹوپی میں تھا انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ماشاء اللہ سے آپ عالم ہیں لیکن تھوڑا دنیاوی تعلیم بھی حاصل کر لیں ان کا یہ جملہ دل میں گھر کر گیا اور ابھی تک میں پڑھ رہا ہوں اور تلنگانہ حکومت کے مسابقتی امحتانات بھی دے رہا ہوں ، فی الحال تلنگانہ اقلیت اسکول میں بحیثیت اردو معلم بر سر خدمت ہوں ۔

 

ایکنا : آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

سنہ ۲۰۰۳ میں حیدرآباد آنے کے بعد خالی اوقات میں کئی گھروں میں جاکر دینی تعلیم پہچاتا رہا کئی بچوں اور بچیوں کو قرآن پڑھایا، جن کے بچے اب ہمارے مکتب میں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جب فوکس اسکول کی نوکری کرتا تھا تو شام ۵ بجے سے سات بجے تک دینی تعلیم کے لئے حوزۃ المہدی العلمیہ میں حجت الاسلام والمسلمین مولانا رضا عباس خان کے کہنے پر ایک مکتب کھول دیا جسے ہندوستان کا پہلا ڈیجیٹل مکتب معرفت ثقلین کہا جاتا ہے۔ اس میں ۵ بچوں سے ۱۵۰ بچوں تک میں نے جمع کئے جو کرونا کی وجہ سے بند ہوا تو بعد میں میرے دوسرے ساتھیوں نے جاری رکھا۔ کیونکہ ۲۰۲۰ میں مکتب سدرۃ المنتہیٰ کا میں نے اعلان کر دیا تھا اور اسے آگے بڑھا رہا تھا۔

 

ایکنا : مکتب سدرۃ المنتہیٰ کھولنے کا کیا مقصد تھا؟

در اصل نوکری جانے کے بعد حالات کی تنگی نے کہا کہ اب جو بھی کروں گا خود کروں گا اور ایسا کہ دوسروں کی بھی مدد کر سکوں چنانچہ میں نے بچوں کی دلچسپی کا خیال رکھتے ہوئے گرافکس کے ساتھ تمام نصاب تیار کئے تاکہ بچے اور معلم دونوں کو بٹھانا آسان ہو ، الحمد للہ اس وقت ۳۰۰ بچوں کے ساتھ ۲۲ معلم اور معلمات مصروف خدمات ہیں۔

 

ایکنا : اپنے نصاب کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میں نصاب کے سلسلے میں اپنے معلم اور معلمات کا شکریہ ادا کروں گا کہ ان لوگوں نے پڑھانے کے علاوہ نصاب بنانے میں میری رہنمائی کا خیال کرتے ہوئے اسباق تیار کئے اور اسے اپڈیٹ بھی کرتے ہیں۔ اردو سکھانے کے لئے میں نے اردوستان نامی کورس جو مرتب کیا ہے وہ ۹۰ گھنٹے میں یا یو کہوں کہ ۹۰ کلاس میں اردو پڑھنا اور لکھنا سکھاتا ہے۔ دینیات بھی ہماری سطح کے حساب سےتیار ہے اس میں بھی گھٹانا بڑھانا ہو جاتا ہے ، مشہور زمانہ کتاب " نورانی قاعدہ" اور عم پارہ یا قرآن مجید اردو اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ گرافکس میں بنی ہے جو لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ دیگر اداروں کی کتابیں استعمال کرنے سے اچھا ہے کہ اپنے معلمین اور معلمات کی صلاحیت کا استعمال کیا جائے اور سارے نصاب میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی ہے۔  

 

ایکنا : بچوں کی تعلیم قرآن کے متعلق آپ کو کس نظریہ نے اس کام کے لئے آمادہ کیا ؟

میرا ماننا ہے کہ قرآن ہر بچےّ کو پڑھوانا چاہیئے سب سے پہلے بحیثیت والدین ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیاوی تعلیم سے پہلے بچوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرائیں تاکہ بچوں کو قرآن کی اہمیت بھی سمجھ میں آئے اور دین کی اہمیت سے بھی آگاہ ہوں ورنہ بہت سے ایسے والدین ہیں جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ تعلیم تو بہت حاصل کر لی لیکن دین اسلام سے بہت دور ہیں نہ نماز صحیح ہے نہ ادب اور اخلاق درست ہے۔ 

 

ایکنا : دور حاضر میں ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے آپ اسے مکتب کے لئے کس طرح استعمال کرتے ہیں؟

در اصل کرونا کی وجہ سے جب دنیا کے تمام کالج ، یونیورسٹی اور اسکول آن لائن ہوئے تو مدارس اور مکاتب نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا تاکہ تعلیم پر اس کا برا اثر نہ پڑے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ، میں نے بھی اس نسخے کو آزمایا لیکن دوسروں کی طرح پی ڈی ایف کی کتابوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ اس میں گرافکس کی آمیزش نے بچوں کو گھنٹہ بھر بٹھانا میرے لئے آسان کر دیا میں جب چاہتا ہوں جس گرافکس کو چاہتا ہوں بدل دیتا ہوں تاکہ بچوں کی دلچسپی بر قرار رہے ۔ الحمد للہ ہمارا یہ نسخہ کامیاب ہے۔ 

ایکنا : اپنے اس تین سالہ سفر میں جو تلخ تجربے ہوئے ان کے بارے میں آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟

جی ہاں اگر اسے بیان نہ کیا جائے تو شاید ہماری اور آپ کی گفتگو ادھوری رہ جائے در اصل میں نیشنل اور انٹرنیشل اسکول میں پڑھاتا رہا اور ابھی بھی پڑھا رہا ہوں تو ظاہر ہے بہت سی چیزیں جو بڑے بڑے اسکول والے اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اسے میں اپنے مکتب میں بھی اپلائی کرتا ہوں اور معلمین اور معلمات کو کہتا ہوں اسے فقط مکتب کے لئے ہی استعمال کیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ جب بچہ اپنے پیر پر کھڑا ہونے لگتا ہے تو دوسروں کی انگلی تھام کر چلنا پسند نہیں کرتا۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوتا ہے لوگ آتے ہیں سیکھتے ہیں اور واپس جاتے ہیں مکتب سدرۃ المنتہیٰ کے اس تین سالہ سفر میں کام کرنے والے تین معلمین اور معلمات نے اپنے اپنے مدارس بھی کھولے ہیں جن کا نام لینا شاید ان کے لئے باعث تکلیف ہو اس لئے مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ اصل بہر حال اصل ہے نقل کرنے والے تو کرتے ہی رہیں گے۔ 

ایکنا : آپ نے مکتب کے لئے ایسا کون سا کام کیا ہے جس پر آپ کو فخر ہے ؟

جی ہاں اللہ کا شکر ہے میں نے فی الحال مکتب کی اپلیکیشن بنوائی ہے جو پلے اسٹور پر " sidratul muntaha quran academy" کے نام سے موجود ہے میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ شیعہ مکاتب بہت سے ہیں لیکن میرا یہ کام جداگانہ ہے۔ ہو سکتا ہے میرے بعد بہت سے لوگ اس طرف متوجہ ہوں مجھے اس دینی مکتب کے سلسلے میں نیوز ۱۸ چینل کی جانب سے Real hero of the socity کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ ہماری ویب سائٹ بھی ہے جو اردو اور انگریزی زبان میں ہے ۔ 

ایکنا : آپ تمام مومنین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟

میرا پیغام یہ ہے کہ اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر آپ ہزاروں روپئے خرچ کرتے ہیں اگر دینی تعلیم پر خرچ کرنا ہو تو ایسی جگہ کریں جہاں آپ کا بچہ خوشی سے پڑھے۔ بیج لگائیں تو پھل بھی کھانے کو ملے فقط زبانی باتیں بہت ہو چکیں اب عمل کا وقت ہے ورنہ ہماری نسلیں خراب ہو سکتی ہیں اپنی نسل کی حفاظت دینی تعلیم سے دور رہ کر بہت مشکل ہے۔ ہر طرف برائی کا دور دورہ ہے اگر چوبیس گھنتے میں ایک گھنٹہ دینی تعلیم پر دیا جائے تو ہر بچہ دیندار ہو اور ہر والدین سرخرو ہوں 

ایکنا : بہت بہت شکریہ شاداب احمد صاحب آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا

جی مجھے بھی اچھا لگا۔ شکریہ

(گفتگو: محمد باقر رضا سعیدی)

 

 

نظرات بینندگان
captcha