ایکنا نیوز- اسلامی علوم و ثقافت کے ماہر دانشور حجتالاسلام والمسلمین علیرضا قائمینیا«تجربه دینی» کے عنوان سے مختلف ثقافتوں اور فکری دریچوں پر ایک تجزیہ پیش کرتا ہے جس میں انکا کہنا ہے:
بیسویں صدی میں فلاسفروں کے درمیان «دینی تجربه» پر بحث چھڑی اور اسٹیس نے کہا کہ دینی تجربہ تمام مذاہب میں ایک مشترک گوہر ہے لیکن اس کی تفسیر میں فرق ہے، مثلا بودح عارف، عیسائی اور مسلمان سب ایک چیز کو دیکھتے ہیں لیکن اپنی ثقافت اور روایات وسنت کے مطابق اس کی تفسیر و تشریح کرتے ہیں۔ اسکے مقابل «اسٹیونز کٹ» نے مقالہ لکھا اور دعوی کیا مختلف روایاتوں اور سنتوں کے درمیان جنمیں لوگ زندگی گزارتے ہیں انکے تجربوں کو شکل بخشتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ وہ کسی چیز کو دیکھے اور پھر اس کی تشریح کریں بلکہ سنت انکے تجربوں کے اندر چھپی ہے۔
اس کے مثال کے مطابق ایک بڑے یہودی عارف کا تجربہ یہ ہے کہ خدا کی ذات میں فانی نہیں ہوسکتا کیونکہ یہودی سنت و روایت میں خدا اور انسان میں تثلیث ہے اور کبھی بھی خدا اور انسان یکجا و متحد نہیں ہوسکتے اور اسکو وہ کفر سمجھتے ہیں لیکن اسلامی سنت میں ایسا نہیں اور انسان فنا فی اللہ ہوسکتا ہے۔
دینی فلسفہ ان دونوں کے نظریات کے بعد متعدد حصوں میں تقسیم ہویے اور کہا گیا کہ کلی طور پر دینی تجربے بارے دعوی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ دینی تجربے میں اختلاف تفسیر پر ہے یا اس کے برعکس سنت و روایات تجربے پر اثر ڈالتا ہے۔
بودھ مذہب میں عارف اس جگہ پہنچ سکتا ہے کہ خلا پر اس کو عبور ہو، ایک عیسائی عارف بھی اس تجربے پر قادر ہے اور بعض دیگر تجربے پر وقوع پذیر ہوئے ہیں مثلا کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بودھ کاھن اسلامی تجربہ کرتا ہے لہذا تمام تجربے سنت کے معلول نہیں۔ بعض متاخرین نے ریالسیم تجربے کو بنیاد بنا کر کہا کہ بعض دینی تجربے درست ہے لیکن اس کو مزید ٹیسٹ کرنا ہوگا۔
اسلام میں دینداری کی بنیاد دینی تجربے نہیں، ہم نہیں کہنا چاہتے کہ دینی تجربے باطل یا اس کی کوئی ویلیو نہیں یا ایک وہم ہے بلکہ بحث اس بات پر ہے کہ اسلام کو اس موضوع پر محدود نہیں کیا جاسکتا اور اس چیز کی بنیاد عقل پر ہے اور اسی طرح خواب یا شہود کو بھی فقہ کی بنیاد نہیں بنا سکتے۔/